بدن سے اٹھتی تھی اس کے خوشبو

بدن سے اٹھتی تھی اس کے خوشبو

بدن سے اٹھتی تھی اس کے خوشبو ، صباء کے لہجے میں بولتا تھا
یہ میری آنکھیں تھی اسکا بستر ، وہ میرے خوابوں میں جاگتا تھا

حیا سے پلکیں جھکی ہوئی تھیں ہوا سے سانسیں رکی ہوئی تھیں
وہ میرے سینے میں سر چھپائے ، ناجانے کیا بات ، سوچتا تھا !

کوئی تھا چشم کرم کا طالب ، کسی پہ شوق وصال غالب
سوال پھیلے تھے چار جانب ، بس ایک میں تھا جو چپ کھڑا تھا

عجیب محبت عجیب رت تھی ، خاموش بیٹھے ہوئے تھے دونوں
میں اسکی آواز سن رہا تھا ، وہ میری آواز سن رہا تھا

وہ اور ہوں گے کے جن کو " امجد " نئے مناظر کی چاہ ہو گی
میں اس کے چیرے کو دیکھتا ہوں ، میں اس کے چیرے کو دیکھتا تھا !

Posted on Feb 16, 2011