دوست کے آنے سے

دوست کے آنے سے

خوشیاں ملیں سارے جہاں کی ہم کو تیرے آنے سے
دکھ اور درد کو بھول گئے ہم تو تیرے آنے سے

کسی اور سے ملتے تھے بڑی احتیاط سے ہم
بس تیرے ہی ہو گئے ہم تو تیرے آنے سے

سادگی کچھ دور ہوئی بننے سنورنے سے اپنی
مہکنے لگے اور چہکنے ہم بھی تیرے آنے سے

ہر محفل میں تیری باتیں اچھی لگتی تھیں ہمیں
دوست چھیڑا کرتے تھے ہم کو تیرے آنے سے

پھول کہا کرتے تھے تمہیں پیار کیا کرتے تھے
تم کو ہی دیکھا کرتے تھے ہم تو تیرے آنے سے

ہر دن عید تھی اور ہر رات چاند رات تھی اپنی
سپنوں کے محل بناتے ہم تو تیرے آنے سے

بڑا بدل گیا ہے یہ لڑکا عاصم رفیق شیراز
پڑتے نہیں ہیں پاؤں زمین پے تیرے آنے سے

Posted on Feb 16, 2011