ہوا نہیں کہ جسے دیکھ ہی نہ پاؤں گا


ہوا نہیں کہ جسے دیکھ ہی نہ پاؤں گا
وہ جسم ہے تو اسے ہاتھ بھی لگاؤں گا

شجر شجر سے لپٹ کر مجھے پُکارو گے
جب آئی دھوپ سروں پر، میں یاد آؤں گا

جو خواہشیں تھیں مٹا کر حنوط کر لی ہیں
اب اہتمام سے اہرامِ دل سجاؤں گا

بہت پسند ہیں پھول اور تتلیاں اُس کو
میں اب گیا تو پرندوں کے پر بھی لاؤں گا

نبھاہنے کے تصور سے شرمسار نہ ہو
میں صرف اپنے تعلق کو آزماؤں گا

وہ مل گیا تو اُسے گالیاں بھی دوں گا عدیم
گلے لگا کے اُسے حال بھی سناؤں گا

Posted on May 19, 2011