عشق

عشق

عشق جنون بھی ہے سنجیدگی بھی ہے

یہ ہوس بھی ہے پاکیزگی بھی ہے

شوخی بھی ہے عشق -

بانکی اداؤں پہ لوٹنے کا نام بھی ہے

روح - ای - ارتقاء دل و دماغ بھی -

زندگی کو سمجھنے کا نام بھی ہے

عشق مصروفیت بھی فرصت بھی ہے

عشق قربت بھی اور فرقت بھی ہے

عشق رفعت بھی اور وسعت بھی ہے

اور عشق کبھی فقط چاہت بھی ہے

یہ معصومیت بھی رخشندگی بھی ہے

بوسہ ہے تو کبھی بندگی بھی ہے

زمیں بھی ہے اور آسمان بھی ہے

مگر افق کا اس میں نشان بھی ہے

کبھی بستر کی سلوٹوں سا -

تو کبھی مندر کی مورتوں سا

کبھی عریانیوں کا شیدا

تو کبھی میرے و مریم کی صورتوں سا

عشق روگ بھی مگر مداوا بھی ہے

عشق پرستش بھی مگر دعوی بھی ہے



رشتوں سے سدا جدا ہے عشق

اس لئے ہی بنا خدا ہے عشق


Posted on Feb 16, 2011