محبت خوش گمان ہے

محبت خوش گمان ہے

تمہاری انگشتری کے نگ میں
میری محبت چمک رہی ہے
اگر کبھی یہ گمان بھی گزرے
کے میں تمہیں بھلانے لگا ہوں
تو اس نگینے کو دیکھ لینا
میری نگاہوں کی جگمگاہٹ
تمہاری آنکھوں سے یہ کہے گی
" سنو محبت تو خوش گمان ہے "

اگر کوئی بُغْض دل کا مارا
نظر سے طوطا ہوا ستارہ
تمھارے سینے میں وسوسوں کے
کسیلے خنجر اُتارتا ہو
کے وہ ’ جو دل پھینک و بیوفا ہو
کے وہ ’ جو پردیس جا بسا ہے
تمہیں بھنور بیچ چور دے گا
وفا کے سب قول طور دے گا

تو اس سے پہلے کے رو پیرو تم
تو اس سے پہلے کے جل بجھو تم
تو اس سے پہلے کے یہ کہو تم
وہ عہد و پیماں سب غلط تھے
وفا کے عنوان سب غلط تھے
سحر کے امکان سب غلط تھے
تم اپنی انگشت دلربہ پر
گلاب چہرہ جھکا کے کہنا


" سنو وہ سچ مچ ہی بے وفا ہے "

تمہارا روتا سوال سن کر
یہ شوق نگ مسکرا پرے گا
محبتوں کے سفیر بن کے
یہ سرخ نگ اور حسین انگوٹھی
میری نمائیندگی کریں گے
تمھارے چہرے سے چھیڑ کر کے
تمہاری آنکھوں کے رنگ پڑھتے
تمہارے بالوں پے ہاتھ رکھ کے
تمھارے گالوں کو تھپتھپا کے
حسین انگشتری کہے گے
" سنو محبت تو خوش گمان ہے "

Posted on Feb 16, 2011