رخ سے پردہ ہٹا دے ذرا ساقیا

رخ سے پردہ ہٹا دے ذرا ساقیا
بس ابھی رنگ محفل بدل جائے گا
جو بے ہوش ہے ، ہوش میں آئے گا
گرنے والا جو ہے وہ سنبھل جائے گا
تم تسلّی نا دو صرف بیٹھے رہو
وقت کچھ میری مرنے کا ٹل جائے گا
کیا یہ کم ہے مسیحا کے ہونے ہی سے
موت کا بھی اِرادَہ بدل جائے گا
میرا دامن تو جل ہی چکا ہے
مگر آنْچ تم پر بھی آئے گوارہ نہیں
میری آنْسُو نا پہنچو خدا کے لیے
ورنہ دامن تمہارا بھی جل جائے گا
پھول کچھ ایس طرح توڑ آئے باغبان
شاخ ہلنے نا پائے نا آواز ہو
ورنہ گلشن میں پھر نا بہار آئے گی
ہر کالی کا کلیجہ ، ڈھال جائے گا
تیر کی جان ہے دل دل کی جان تیر ہے
تیر سے یوں نا کھیلو خدا کے لیے
تیر نکلا تو دل بھی نکل جائے گا
دل جو نکلا تو دم بھی نکل جائے گا . . . !

Posted on Jul 06, 2012