اس قدر مسلسل تھیں شدتیں جدائی کی

اس قدر مسلسل تھیں شدتیں جدائی کی
آج پہلی بار اس سے میں نے بیوفائی کی

ورنہ اب تک یوں تھا خواہشوں کی بارش میں
یا تو ٹوٹ کر رویا یا غزل سرائی کی

تاج دیا تھا کل جن کو ہم نے تیری چاہت میں
آج ان سے مجبورا تازہ آشْنائی کی

ہو چلا تھا جب بی مجھ کو اختلاف اپنے آپ سے
ٹونی کس گھڑی ظالم میری ہمنوائی کی

ترک کر چکے قاصد کوئے نامرادوں کو
کون اب خبر لے شہر آشْنائی کی

طنز و طعنہ و تہمت سب ہنر ہیں ناصح کے
آپ سے کوئی پوچھے ہم نے کیا برائی کی . . .

Posted on Feb 16, 2011