سن یار سانول میرے

اس سے پہلے کے میری سانسیں مجھے دھوکہ دے
اور چرا لیں میرے جسم سے روح کا رشتہ
میرے سینے میں دھڑکتا ہوا یادوں کا لاوا
بجھ کے سرد نا پر جائے
سن یار سانول میرے
گزرتے ہوئے لمحے
میری عمر کے انجام کی طرف گامزن ہیں
اس سے پہلے ان کو منزل مل جائے
اور میرا جسم لحد میں اُتَر جائے
سن یار سانول میرے
مجھ سے اپنی یادوں کا
بھولی بسری باتوں کا
اور
ساتھ بتائے ہووے پل
کچھ جاگیر جو اپنی ہستی میں ہے
آ کچھ حساب کر لے
بٹوارہ کریں کچھ
خوشی اور سکھ تم رکھ لو
سارے دکھ درد مجھ دے دو
سن یار سانول میرے . . . !

Posted on Jan 05, 2012