فوسیل ایندھن

پیارے بچو! آپ کے گھروں میں کھانا پکانے، روشنی اور مختلف برقی آلات کو چلانے کے لیے گیس اور بجلی کی شکل میں توانائی(energy) استعمال ہوتی ہے۔ کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ یہ توانائی کہاں سے حاصل ہوتی ہے؟ ہم لوگ کھانا پکانے، عمارتوں کو گرم یا ٹھنڈا رکھنے اور مشینوں کو چلانے کے لیے جو ایندھن استعمال کرتے ہیں وہ زیادہ تر کوئلہ، تیل یا قدرتی گیس سے بنایا جاتا ہے۔ ان کو فوسیل ایندھن یا Fossil Fuel کہا جاتا ہے کیونکہ یہ زمین کی گہرائیوں میں دبے ہوئے ان حیوانات اور درختوں وغیرہ کی باقیات(fosslis) سے بنے ہوتے ہیں، جو لاکھوں سال قبل زمین پر پائے جاتے تھے۔
گرین ہاؤس کیا ہے؟
فوسیل ایندھن کو جلا کر صنعتوں(بجلی گھروں، کارخانوں) ٹرانسپورٹیشن(کاروں، جہازوں، کشتیوں) اور گھریلو ضروریات کی چیزوں(بلب، کمپیوٹر، ٹیلیویژن، واشنگ مشین، استری، ہیٹر اور ریفریجریٹر وغیرہ) کے لیے توانائی مہیا کی جاتی ہے۔
بچو.......! اگرچہ فوسیل ایندھن سے ہم اپنی توانائی کی ضروریات پوری کررہے ہیں لیکن ساتھ ہی اس کے نتیجے میں"گرین ہاؤس گیسیں"(کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین، نائٹرس آکسائیڈ وغیرہ) بھی بڑی مقدار میں پیدا ہورہی ہیں۔ فوسیل ایندھن کے جلنے سے پیدا ہونے والی یہ گیسیں زمین کو سورج کی نقصان دہ شعاعوں سے بچانے والے کرہ ہوائی(atmosphere) کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ یہ کرہ ارض ہوائی یا ایٹما سفئیر، گرین ہاؤس گیسوں سے ہی بنا ہوا ہے۔ زمین پر صنعتی اور گھریلو ضروریات کے لیے بڑے پیمانے پر فوسیل ایندھن کے استعمال سے بہت زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسیں پیدا ہورہی ہیں جو کرہ ہوایئ میں گیسوں کے قدرتی توازن میں بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔ اس سے ہمارے ماحول کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہم اس سے کہیں زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کررہے ہیں جتنی زمین کے بیرونی ماحول یا ایٹما سفئیر کو ضرورت ہے۔ اس کا نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ ہماری یہ پیاری سی زمین، جسے سائنسی میں "سبز سیارہ" یا گرین پلانیٹ بھی کہا جاتا ہے، دن بہ دن گرم اور خشک ہوتی جارہی ہے۔
پیارے بچو! یہ تو اب آپ کو پتہ چل ہی چکا ہوگا کہ کرہ ارض، یعنی ہماری زمین مختلف گیسوں سے بنے ہوئے ایک خفاظتی غلاف میں لپٹی ہوئی ہے جس کو کرہ ہوائی یا atmosphere کہا جاتا ہے۔ اس غلاف میں موجود کاربن ڈائی آکسائئڈ اور میتھین جیسی گیسز، سورج کی نقصان دہ بالائے بنفشی شعاعوں(ultraviolet rays) کو روکتی ہیں۔ یعنی ایٹما سفئیر سورج کی ناقابل برداشت گرمی کو براہ راست زمین پر پہنچنے نہیں دیتا اور اسے کم کرکے نیچے بھیجتا ہے۔ اس کے نتیجے میں زمین کا درجہ حرارت(temprature) معتدل رہتا ہے اور صرف اتنا ہی بڑھتا ہے کہ انسان اور دیگر جاندار اسے برداشت کرسکیں۔
حالیہ برسوں کے دوران انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے ایٹماسفئیر میں گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار بڑھ گئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ زمین کے درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے اور یہاں گرمی بڑھتی جارہی ہے۔ بات صرف اتنی ہی نہیں کہ گرمی بڑھ رہی ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ پریشان کن چیز یہ ہے کہ گرمی میں اضافہ زمین کے لیے کسی بہت بڑی تباہی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
گرین ہاؤس گیسوں میں اضافے سے ماحولیاتی تبدیلیاں زمین پر قدرتی آفتوں کا سبب بن رہی ہیں۔ اب تباہ کن اور ہولناک سمندری طوفان، سیلاب اور بے تحاشہ بارشوں کا ہونا معمول بنتا جارہا ہے۔ یہ صورت حال ہمارے کرہ ارض کی بقاء کے لیے ایک سنگین خطرہ بن گئی ہے۔
زمین کو کیسے بچائیں؟
بچوں........! اس خوفناک اور انتہائی پریشان کُن صورتحال پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنے جینے کے طریقوں میں مثبت تبدیلی لانا ہوگی اور ماحول دوست زندگی کو اپنانا ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ درخت لگانے سےلے کر فوسیل ایندھن کے استعمال میں کمی کرنے تک، ایسے بہت سے کام ہیں جن کے ذریعے ہم گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرسکتے ہیں اور اپنے کرہ ارض کو ایک بار پھر انسان سمیت جانداروں کے لیے محفوظ بناسکتے ہیں۔

Posted on Mar 24, 2011