پانی سے زندگی

پیارے بچو! ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جو ہرطرف سے پانی میں گھری ہوئی ہے۔ ہماری زمین پر زندگی کا دارومدار پانی پر ہے۔ نہ صرف ہم انسانوں، بلکہ کرہ ارض پر موجود ہر جاندار، حتٰی کہ پودوں اور درختوں کی زندگی کے لیے بھی پانی بے حد ضروری ہے۔ یعنی آپ کہہ سکتے ہیں کہ اگر پانی نہ ہو تو پھر زمین پر زندگی بھی نہیں ہوگی۔ لیکن بچو، ایک ایسا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے جس سے ہمارا سیارہ تیزی سے پانی کے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے، یعنی زمین پر پانی کم سے کم ہوتا جارہا ہے، جس سے انسانوں سمیت ہرجاندار کی زندگی کے لیے خطرات پیدا ہوگئے ہیں۔ اس مسئلے کا نام ہے"ماحولیاتی تبدیلی" یا climate change, افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ مسئلہ خود ہم یعنی انسانوں نے پیدا کیا ہے۔
آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ جب زمین چاروں طرف سے پانی میں گھری ہوئی ہے تو پھر پانی میں کمی کس طرح ہوسکتی ہے؟ بچو بات یہ ہے کہ بے شک زمین پر تین حصے پانی اور ایک حصہ خشکی ہے لیکن یہ تین حصے جو پانی ہے، وہ سمندر پر مشتمل ہے، جس کا پانی نمکین ہے۔ اس پانی کو نہ تو ہم اور دیگر جاندار پی سکتے ہیں اور نہ اس سے کھیتی باڑی کی جاسکتی ہے۔ ہمیں پینے اور زراعت کے لیے میٹھے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ میٹھا پانی ہمیں دو ذرائع سے ملتا ہے، ایک آسمانی(بارش اور برفباری کی شکل میں) اور دوسرا زمینی(چشموں، جھیلوں اور زمین کے اندر محفوظ ذخیروں کی شکل میں) ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے موسم اور بارشوں کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے جس کی وجہ سے زمین کے بہت سے حصوں پر بارشیں بہت کم ہورہی ہیں یا پھر بہت زیادہ۔ نتیجتاً یا تو علاقے خشک سالی کا شکار ہوتے ہیں یا پھر وہاں شدید سیلاب آرہے ہیں۔ ان دونوں صورتوں میں نہ تو پینے کے لیے پانی میسرآسکتا ہے اور نہ ہی کھیتی باڑی کے لیے....... ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے زیرزمین پانی کے ذخیرے بھی تیزی سے ختم ہورہے ہیں اور آپ کو پتہ ہے کہ یہ ماحولیاتی تبدیلی کیوں ہورہی ہے؟ یہ آلودگی یعنی گندگی کی وجہ سے ہورہی ہے۔ ہم لوگ زمین پر بہت زیادہ آلودگی پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں۔ ہم کوڑا کرکٹ اور کچرے کو مناسب طریقے سے ٹھکانے نہیں لگاتے۔ یہ گندگی دریاؤں اور سمندروں میں شامل ہوجاتی ہے جس سے جنگلات اور آبی حیات، یعنی پانی کے جانداروں کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس کے علاوہ موٹرگاڑیوں، کارخانوں، دکانوں، مکانوں اور بڑی بڑی صنعتوں سے نکلنے والا زہریلا دھواں فضا میں جمع ہورہا ہے جس سے آکسیجن کم ہورہی ہے اور زہریلی گیسوں کی مقدار بڑھ رہی ہے۔ فضا میں آکسیجن کا کم ہونا ہمارے لیے انتہائی خطرناک بات ہے کیونکہ ہم اور دیگر تمام جاندار آکسیجن کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ اگر ہمیں صحت مند اور زندہ رہنا ہے تو پھر آلودگی پر قابو پانے کےلیے فوری اورمؤثر اقدامات کرنا ہوں گے اور ایسے جدید طریقے تلاش کرنا ہوں گے جن سے میٹھے پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکے۔
سائنسی اندازوں کے مطابق کرہ ارض پر 326 کوینٹلین(کھرب ہا کھرب) گیلن پانی موجود ہے، تاہم انسانوں کو اس پانی کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ پینے یا استعمال کرنے کے لیے دستیاب ہے۔ زمین پر پانی کی زیادہ مقدار یا تو نمکین سمندری پانی یا پھر قطبی برف کی شکل میں ہے۔
ہر انسان کو پینے کے لیے صاف اور محفوظ پانی کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ جان کر آپ کو یقیناً بہت دکھ ہوگا کہ دنیا میں 110 کروڑ افراد کو صاف پانی دستیاب نہیں ہے۔ اس وقت دنیا کی آبادی 670 کروڑ(6٫7 ارب) ہے۔ اگلے چالیس برسوں میں (2050ء تک) یہ آبادی 900 کڑور(9 ارب) سے بھی زیادہ ہوجائے گی۔ ان سب انسانوں کو پینے، فصلیں اُگانے اور توانائی پیدا کرنے کے لیے پانی کی ضرورت ہوگی۔
ماحولیاتی تبدیلی کے باعث بارشیں نہ ہونے کے نتیجے میں دنیا کے کچھ حصے بنجر اور بے آباد ہوچکے ہیں۔ جبکہ پچھلے چالیس برسوں کے دوران دنیا کے خشک سالی سے متاثرہ حصوں میں دوگنا اضافہ ہوچکا ہے۔ ایسے میں پانی کی بڑھتی ہوئی طلب دنیا کو ایک سنگین بحران کی طرف دھکیل رہی ہے اور اس بات کا ندیشہ ہے کہ پانی کے لیے دنیا کے ممالک ایک دوسرے کا خون بہانا شروع کردیں گے۔
بچو! ہمارے سر پر اتنا بھیانک خطرہ منڈلارہا ہے لیکن اس کے باوجود لوگوں کو اس کا کوئی احساس ہی نہیں اور وہ مسلسل پانی کو ضائع کئے چلے جارہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ صرف غریب اور پسماندہ ملکوں میں ہی پانی ضائع کیا جاتا ہے، بلکہ امیر اور ترقی یافتہ ملکوں میں بھی کم وبیش یہی صورتحال ہے۔ انتہائی قیمتی پانی کو کارخانوں، صنعتوں، دکانوں اور گھروں میں نہایت بے دردی سے ضائع کیا جارہا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پانی کو بچانے کے لیے پوری دنیا فوری طور پر اقدامات کرنے ہوں گے اور لوگوں کو پانی کی اہمیت سے آگاہ کرنا ہوگا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو بہت جلد دنیا کا ایک بڑا حصہ صحرا میں تبدیل ہوجائے گا۔
بچو! آپ کو بھی چاہئے کہ اس اہم ترین کام میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس کے لیے آپ اپنے گھر، محلے اور اسکول میں"پانی بچاؤ" مہم شروع کرسکتے ہیں اور لوگوں کو پانی احتیاط سے استعمال کرنے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔ تو پھر کیا ہے، ہوجائے یہ مہم آج ہی سے شروع ؟

Posted on Mar 24, 2011