Object reference not set to an instance of an object.

محبوب رسولﷺ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ

11ہجری میں رحمت دو عالمﷺ نے اپنے وصال سے چند دن پہلے حدودِ شام کی طرف بھیجنے کے لیے ایک لشکر مرتب فرمایا۔ سات سو مجاہدین پر مشتمل اس لشکر میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بن الجراح، حضرت سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص اور حضرت سعید رضی اللہ عنہ بن زید کے علاوہ اور بھی بہت سے عظیم المرتبت صحابہ کرام شامل تھے جو سب جذبہ شہادت سے سرشار تھے لیکن جب سروردوعالمﷺ نے اس لشکر کی قیادت کے لیے ایک اٹھارہ انیس سالہ نوجوان کو منتخب فرمایا تو کچھ لوگوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ ایک نوعمر مجاہد کو مہاجرینِ اولین پر افسری کا استحقاق کیسے حاصل ہوگیا ہے۔ حضورﷺ کو ان کے استعجاب کی خبر ہوئی تو آپﷺ علالت طبع کے باوجود سر پر پٹی باندھے ہوئے کاشانہ اقدس سے باہر تشریف لائے اور منبر پر رونق افروز ہوکر ایک پُرجلال خطبہ دیا، جس میں فرمایا۔
''لوگوں تم نے اس مہم کے قائد کے بارے میں جو کچھ کہا ہے مجھ کو اس کی اطلاع مل گئی ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں اس سے پہلے تم اس کے باپ کے بارے میں ایسی ہی باتیں کہہ چکے ہو۔ خدا کی قسم وہ بھی افسری کا مستحق تھا اور اس کے بعد اس کا بیٹا بھی افسری کا مستحق ہے۔ وہ مجھ کو بہت محبوب تھا اور یہ بھی ہر خوش گمانی کے قابل ہے۔ اس لیے تم لوگ اس کے ساتھ بھلائی سے پیش آیا کرو کہ تمہارے بہترین آدمیوں میں سے ہے''۔
حضورﷺ کے ارشاداتِ مقدسہ نے لوگوں کو مبہوت کردیا اور وہ بے اختیار پکار اٹھے'' یا رسول اللہﷺ ہم آپ کے فیصلے پر راضی ہیں اور اس نوجوان کی قیادت سب کو دل وجان سے منظور ہے''۔
یہ خوش بخت نوجوان جن کے بارے میں سید المرسلین فخرموجودات خیرالانامﷺ نے بھرے مجمع میں اعلان فرمایا کہ وہ افسری کے سزا اور ہر نیک گمانی کے لائق ایک بہترین مسلمان ہیں، حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ بن زید رضی اللہ عنہ تھے۔
سیدنا حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ بن زید رضی اللہ عنہ کا شمار بڑے جلیل القدر صحابہ میں ہوتا ہے۔ ان کی کنیت ابو محمد بھی تھی اور ابو زید بھی اور وہ بنوقضاعہ کی ایک شاخ بنو کلب سے تعلق رکھتے تھے۔
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے والد حضرت زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ وہ واحد صحابہ ہیں جن کا نام قرآن پاک میں ہے۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ سرور عالمﷺ کے آزاد کردہ غلام منہ بولے بیٹے اور سب سے پہلے ایمان لانے والی چار ہستیوں میں سے ایک تھے۔ ان کے جذبہ فدویت اور دوسرے اوصاف و محاسن کی بنا پر حضورﷺ ان کو اس قدر عزیز جانتے تے کہ''حبِ رسول اللہﷺ(رسول اللہﷺ کے محبوب) کے لقب سے مشہور ہوگئے تھے۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی والدہ برکتہ رضی اللہ عنہا جو تاریخ میں اپنی کنیت ام یمن سے مشہور ہیں۔ رسول اکرمﷺ کے عہد طفلی میں آپﷺ کی کھلائی تھیں، اس لیے حضورﷺ ان کی بیحد تعظیم و تکریم فرماتے تھے اور ان کو''امی'' کہہ کر مخاطب فرمایا کرتے تھے۔
علامہ ابن سعد رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ 7 ہجری بعد بعثت مکہ میں پیدا ہوئے۔ ماں باپ دونوں شمع رسالتﷺ کے پروانے تھے اور سیدالانامﷺ انہیں اپنے گھر کے افراد کی طرح سمجھتے تھے۔ اس لیے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے پہلے دن ہی سے اسلام کے بابرکت ماحول میں پرورش پائی۔ بقول حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ وہ اسلام کے سوا کچھ نہ جانتے تھے۔

Posted on Mar 22, 2011