خزاں کے موسم کی سرد شامیں

خزاں کے موسم کی سرد شامیں
سراب یادوں کے ہاتھ تھامے

کبھی جو تم سے حساب مانگیں
مایوسیوں کے نصاب مانگیں

بے نور آنکھوں سے خواب مانگیں
تو جان لینا کے خواب سارے

میری حدوں سے نکل چکے ہیں
تمہاری چوکھٹ پہ آ رکے ہیں

مسافتوں سے تھکے ہوئے ہیں
غبار راہ سے اٹے ہوئے ہیں

تمہاری گلیوں میں چپ کھڑے ہیں
کچھ اس طرح سے دھرے ہوئے ہیں

سوالی نظروں سے تک رہے ہیں
تمہاری چوکھٹ پہ جانے کب سے
جبیں جھکائے ہوئے کھڑے ہیں

Posted on May 05, 2011