نا انتشار کا خطرہ نا انہدام کا ہے

نا انتشار کا خطرہ نا انہدام کا ہے
یہ مرحلہ تو تباہی کے اختتام کا ہے

جو ختم ہو گیا رشتہ وہ دوستی کا تھا
جو بچ گیا ہے تعلق ، وہ انتقام کا ہے

ہر ایک لمحہ عجب خوف بے پناہی کا
ہمارے عھد میں یہ رنگ صبح و شام کا ہے

بچائیں کس طرح بلاؤں سے بستی کو
محافظوں کا ارادہ بھی قتل عام کا ہے

یہ بزدلی ہے کے ہوتے ہیں پھول ان کے لیے
وہ جن کے ہاتھ میں خنجر ہمارے نام کا ہے

سفر ہے دشت کا اور رات ہو گئی ’ عالم ’
ہمارے سامنے اب مسئلہ قیام کا ہے

Posted on Feb 16, 2011