ہوا ہے حال یہ بارش کی مہربانی سے

ہوا ہے حال یہ بارش کی مہربانی سے

ہوا ہے حال یہ بارش کی مہربانی سے ،
زمین کے زخم ہرے ہوگئے ہیں پانی سے ،

ڈھلے ہیں اشک شب غم بڑی روانی سے ،
ابھی چراغ جلائے ہیں ہم نے پانی سے ،

نا کام آئی میری جرات لب اظہار ،
وہ بدگمان ہی ہوا اور خوش بیانی سے ،

میں چاہتا ہوں تمہارا بھرم رہے قائم ،
نکال دو میرے کردار کو کہانی سے ،

مجھے بھی چہرہ شناسی کا آگیا ہے ہنر ،
ملا کمال یہ دشمن کی مہربانی سے ،

کسی سے کچھ نا کہا اور کہہ دیا سب کچھ ،
زبان کا کام لیا میں نے بےزبانی سے ،

ابھی زمین سے نہیں رابطہ میرا " اِعْجاز " ،
گزر رہا ہوں ابھی دور آسمانی سے . . . . . . ! ! ! !

Posted on Feb 16, 2011