میرے دل سے گزرتے ہوئے بوجھل لمحوں

میرے دل سے گزرتے ہوئے بوجھل لمحوں
ذرا ٹھہرو کے میری سانسیں بہت مدھم ہیں
میرے اشکوں نے میری آنکھوں سے بغاوت کی ہے
میرے چہرے پہ کسی غم کی سیاہی ہے
زندگی درد کے صحرا سے گزر آئی ہے
میری یادوں میں وہ قدموں کے نشاں باقی ہیں
جن قدموں سے وہ میری اور چلی آتی تھی
ان آنکھوں میں کبھی مجھکو ٹھکا نہ نا ملا
جن آنکھوں میں محبت کی ضیا پائی تھی
اب وہ آنکھیں چمکتی ہیں سیاہ راتوں میں
بے کلی اور بڑھاتی ہے میرے دل کی
اس کی باتوں میں اترتی ہوئی مدھم شوخی
اس کے ماتھے سے چھلکتی ہوئی تاروں سی چمک
اس کا مخمور نگاہوں سے تکنا میرا
جس کی حدت سے مری جا نکل جاتی تھی
میرے بے ربط سوالوں کے جوابوں میں
بڑے غور سے مرے چہرے کو تکنا اس کا
میرے دل کے نہاں خانے میں چھپی بیٹھی ہیں
وہ یادیں جو کبھی حال کا آئینہ تھیں
وہ منظر کے جسے پانے کو اَبْتَر ساتھی ہے نگاہ
وہ راتیں جو مچلتی تھیں ملاقاتوں کے لیے
مرے دل سے گزرتے ہوئے بوجھل لمحوں
تم جو آتے ہو تو مان کے نہاں خانوں میں
کسی ہستی کو مجسم بنا دیتے ہو
وہ تخیل کے جسے چھونے کی اِجازَت ہے نہیں
وہ پیکر جو اب کسی اور کی امانت ہے
میرے پہلو میں اب یادوں کے سوا کیا ہے
اب میرے پاس ان کے سوا کیا ہے
یوں نہ ہو کے یہ مٹا دے مجھ کو
میری ہستی اس بے نام سی کسک میں ہے
خاک ہو جائے اور کسی کو پتہ ہے نہ چلے
میرے اپنے میری وحشت سے گریزاں ہو کر
اپنے ہاتھوں کو چھڑا لیں مرے ہاتھوں سے
میری آنکھوں میں اک سحرا کے سوا کچھ بھی نہ ہو
میری پلکوں پہ اشکوں کے سوا کچھ بھی نہ رہے
مرے دل سے گزرتے ہوئے بوجھل لمحوں
یہ حقیقت بھی کسی طور سمجھ لینے دو
زندگی ایک ہے تخیل کا جہاں تو نہیں ہے
کئی رنگ میرے اب بھی منتظر سے ہیں
انہیں دیکھوں ، انہیں سمجھوں ، انہیں اپنا لوں میں
غم یاراں سے نکل کر مجھے جینے دو
ہے بڑا حبس تھوڑی سانس ہے لے لینے دو
مجھے چھوڑو کے مجھے اب تو جی لینے دو
میرے دل سے گزرتے ہوئے بوجھل لمحوں
ذرا ٹھہرو کے میری سانسیں بہت مدھم ہیں

Posted on Oct 01, 2012