بارشوں کی رات میں

بارشوں کی رات میں

خواہشیں ہوتی ہیں کیا کیا ، بارشوں کی رات میں ،
میں ہوں اور لمس تیرا ، بارشوں کی رات میں ،

مانگتے ہیں بھیگی رات کے سارے منظر قرب ،
اب انہیں سمجھاؤں کیا ، بارشوں کی رات میں ،

تیرگی میں غم کا سایہ بھی کہاں ہوتا ہے ساتھ ،
میں اگر ہوتی ہوں تنہا ، بارشوں کی رات میں ،

میں یہ سمجھی یہ بھی مرا ہے کسی کے ہجر کا ،
پھوٹ کر بادل رویا ہے ، بارشوں کی رات میں ،

دن تو جیسے تیسے دنیا کے جھمیلوں میں کاٹا ،
ہجر نے تیرے رلایا ، بارشوں کی رات میں ،

من چھپائے ایک کونے میں پڑی تھی دم بخود ،
میری تنہائی بھی تنہا ، بارشوں کی رات میں ،

دامن قاتل پہ کوئی چھینٹ تک آئی نہیں ،
یوں ہوا خون تمنا ، بارشوں کی رات میں . . . . . ! ! ! ! ! !

Posted on Feb 16, 2011