اب تُو کچھ نیند سی آتی ہے مجھے

اب تُو کچھ نیند سی آتی ہے مجھے

طرز جینے کا سکھاتی ہے مجھے
تشنگی زہر پلاتی ہے مجھے
رات بھر رہتی ہے کس بات کی دھن
نا جاگتی ہے نا سلاتی ہے مجھے
روٹھا ہوں جو کبھی دنیا سے
زندگی آکے مناتی ہے مجھے
آئینہ دیکھوں تو کیوں کر دیکھوں
یاد اک شخص کی آتی ہے مجھے
بند کرتا ہوں جو آنکھیں کیا کیا
روشنی سی نظر آتی ہے مجھے
کوئی مل جائے تو رستہ کٹ جائے
اپنی پرچھائی ڈراتی ہے مجھے
اب تو یہ بھول گیا کس کی طلب
دیس پردیس پھراتی ہے مجھے
کیسے ہو ختم کہانی غم کی
اب تو کچھ نیند سی آتی ہے مجھے

Posted on Feb 16, 2011