اے میرے خاموش ساتھی

اے میرے خاموش ساتھی

اے میرے خاموش ساتھی
تو کیوں اتنا اُداس ہے
تجھے تو خدا نے نعمت عطا کی ہے
لوگوں کو ہنسانے کی
یہ تیرے آنسو
جنہیں لوگ دیکھنے سے غافل ہیں
جو اپنی خوشی میں مگن ہیں
جو اپنی ہستی میں کہیں گم ہیں
تو کیوں انکو کھوجتا ہے
تو کیوں انکو ڈھونڈتا ہے
کے تو تو شروع سے اکیلا ہے
اور آخر تک اکیلا ہے
کے یہ خوشی جو دو پل کی ہے
تو بھی اس میں خوش ہوجا
اور جی لے ساری زندگی
تو کیوں اتنا اُداس ہے
تو کیوں افسردہ ہوتا ہے
کے یہ تو ہیں مسافر اپنی ہی زندگی کے
کے ناجانے یہ سفر کب ختم ہو جائے
پھر باقی رہ جائیگا ایک احساس
کے احساس تو ہوتا ہے کسی کے جانے کے بعد
یہ وقت کی ریت جو ہاتھوں سے پھسل رہی ہے
کہیں تھم نا جائے
تو خوش ہوجا
اور جی لے یہ شام
کے کہیں وقت گزر نا جائے
اے میرے خاموش ساتھی
آؤ اس شام کے اندھیرے میں
ہم دونوں بیٹھ کے باتیں کریں
کوئی بھی نا ہو ہمارے آس پاس
کچھ تم شکوہ کرو
کچھ ہم تم کو منائیں
یہ موسم تو بدل جائیگا
مگر ہم نا بدلیںگے
کے یہ وقت تو چلا جائیگا
مگر ہم یہیں رہینگے
اے میرے خاموش ساتھی . . . . . . . . ! !

Posted on Feb 16, 2011