آ ملی شہر سے حد دل کی بیابانی کی


آ ملی شہر سے حد دل کی بیابانی کی
اتنی تعمیر ہوئی ہے میری ویرانی کی

اک جہاں پھیل رہا ہے مرے دل کے اندر
یہ اکھٹی کوئی صورت ہے پریشانی کی

وہ خالہ ہے کے ہے نہیں ہے مجھ سے
ایسی حد پار ہوئی بے سر و کی

وہ جو حیرت کے کھلونوں پہ مچل جاتا تھا
میں نے اب تاق اسی بچے کی نگہبانی کی

آگ سے کھیلتی رہتی تھی جو مٹی میری
اس کو تھی ضرورت بھی کبھی پانی کی

میری خواہش پہ الاؤ کوئی روشن تو ہوا
لاؤں لرزتی ہے رہی میری پشیمانی کی

اب تو مٹی کے سوا کوئی خریدار نہیں
تو نے قیمت ہے گرا دی مری پیشانی کی

Posted on Aug 23, 2012