ایک لڑکا پاگل پاگل سا

ایک لڑکا پاگل پاگل سا
اور تھوڑا سا دیوانہ بھی

کچھ لوگوں سے وہ دور بھی تھا
اور تھوڑا سا مجبور بھی تھا

وہ جزبوں کا شہ زور بھی تھا
پر دل اسکا کمزور بھی تھا

اور دل بھی جیسے شیشہ ہو
بس شیشہ چھکنا چور ہوا

وہ لڑکا بہت رنجور ہوا
وہ غم سے تھک کر چور ہوا

پھر وہ بہت ہی ٹوٹ گیا
وہ اپنے آپ سے روٹھ گیا

اب وہ چپ چپ رہتا ہے
کچھ سنتا ہے نا کہتا ہے

بس کمرے میں بند رہتا ہے
اور نظمیں لکھتا رہتا ہے

لیے آس کے جگنوں دامن میں
وہ دیکھے تارے آنگن میں


اب رو رو دعائیں کرتا ہے
ہر روز یہ رب سے کہتا ہے


بس لمبی ہوئی تمہید بہت
ہے اسکو رب سے امید بہت

کے جلد غم اسکے دُھل جائیں گے
یہ دن برے بھی ٹل جائیں گے . . . .

Posted on Feb 16, 2011