دل کو ہر روز سناتی ہوں کہانی اسکی

اپنے سینے سے لگا کر نشانی اس کی
دل کو ہر روز سناتی ہوں کہانی اسکی

آج کیوں اس کو منانے کی ضدیں سوچتا ہے ؟
دل نے کل تک کوئی بات نا مانی اسکی

پھر سے مل کر نا بچھڑنے کی قسم کھائے گا
سوچ لینا کے یہ عادت ہے پرانی اس کی

جب بھی ڈھونڈا ہے اسے صورت دریا ڈھونڈا
آ گئی اپنی طبیعت میں روانی اس کی

برف پگھلی ہے بہت اب کے پہاڑوں سے اُدھر
یاد آئی ہے بہت شعلہ بیانی اس کی

میری ہر صبح اسی فکر میں گزری
کیسے گزرے گی بھلا شام سہانی اس کی . . . !

Posted on Jul 24, 2012