ہم تو ابھی اور زندگی کے طلبگار تھے جانا

موت نے اس خاموشی سے ہم کو ابدی نیند سلایا شعیب
ہم تو ابھی اور زندگی کے طلبگار تھے جانا
یہ سب اس بیوفا کی مہربانیاں ہیں کہ آج
ہمارا جنازہ اٹھا اتنے زخم کھانے کے بعد
اب جب سوئے ہیں اس جہاں کو چھوڑ کے آگئے ہیں پھر وہ جگانے
یاد ہمیں آگئے ہیں وہ بیتے دن پرانے
پھول رکھ کے ہماری قبر پے مسکرا رہے ہیں وہ
جیسے ہماری بےبسی پے کھلکھلا رہے ہیں وہ
شعیب اب قبر سے جائیں تو جائیں کہاں
اب صبح شام ہماری قبر پے آنے لگے ہیں وہ

Posted on Feb 16, 2011