جو رنجشیں تھیں جو دل میں غبار تھا نا گیا

جو رنجشیں تھیں جو دل میں غبار تھا نا گیا
کے اب کی بار گلے مل کے بھی گلہ نا گیا

اب اس کے وعدہ فرداً کو بھی ترستے ہیں
کل اسکی بات پے کیوں اعتبار کیا نا گیا

اب اس کے ہجر میں روئیں نا وصل میں خوش ہوں
وہ دوست ہو بھی تو سمجھو کے دوستانہ گیا

نگاہ یار کا کیا ہے ہوئی ہوئی نا ہوئی
یہ دل کا درد ہے پیارے گیا گیا نا گیا

سبھی کو جان تھی پیاری سبھی تھے لب بستا
بس اک فراز تھا ، ظالم سے چپ رہا نا گیا

Posted on Feb 16, 2011