کامیاب ہے وفا تو بہانے تراش لوں

کامیاب ہے وفا تو بہانے تراش لوں
چہرے نئے ہیں شہر پرانے تراش لوں

نسبت میری جبیں کو انہیں پتھروں سے ہے
مشکل نہ تھا کے آئینہ خانے تراش لوں

اوڑھے رہوں میں جلتی ہوئی دھوپ کی ردا
اور موسموں کے گیت سہانے تراش لوں

شبنم سے راہگزار سحر کا پتا کروں
مٹی سے رنگ و بو کے خزانے تراش لوں

مجھ سے میرا خدا آج بھی نہ ہو
زخموں کے خال و خد سے زمانے تراش لوں

میں جو اسیر ہوں تو خود اپنی نگاہ کی ہوں
دل کی خوشی کو لاکھ فسانے تراش لوں

شام و سحر سے دور زمانہ ملے ، تو میں
اس بے قرار جا کے ٹھکانے تراش لوں

اِک خواب اور فصل بہاراں کے نام ادا
آ کر کہا ہے موجِ ہوا نے تراش لوں

Posted on Aug 23, 2012