میرے دشمنوں سے کہو کوئی

میرے دشمنوں سے کہو کوئی

میرے دشمنوں سے کہو کوئی . . . . ! !
کسی گہری چال کے اہتمام کا سلسلہ ہی فضول ہے
کے شکست یوں بھی قبول ہے
کبھی حوصلے جو مثال تھے
وہ نہیں رہے
میرے حرف حرف کے جسم پر
جو معنی کے پر و بال تھے
وہ نہیں رہے
میری شاعری کے جہاں کو
کبھی تتلیوں ، کبھی جگنوؤں سے سجائے پھرتے خیال تھے
وہ نہیں رہے
میرے دشمنوں سے کہو کوئی
وہ جو شام شہر وصال میں
کوئی روشنی سی لیے ہوئے کسی لب پے جتنے سوال تھے
وہ نہیں رہے
جو وفا کے باب میں وحشتوں کے کمال تھے
وہ نہیں رہے
میرے دشمنوں سے کہو کوئی
وہ کبھی جو عہد نشاط میں
مجھے خود پے اتنا غرور تھا
کہیں کھو گیا
وہ جو فاتحانہ خمار میں میرے سارے خواب نہال تھے
وہ نہیں رہے
کبھی دشت لشکر شام میں
میرے سرخرو ماہ و سال تھے
وہ نہیں رہے
کے بس اب تو دل کی زبان پر
فقط ایک قصہ حال ہے
جو نڈھال ہے
جو گئے دنوں کا ملال ہے
میرے دشمنوں سے کہو کوئی . . ! ! ! ! ! ! !

Posted on Feb 16, 2011