مل گیا تھا تو اسے خود سے خفا رکھنا تھا

مل گیا تھا تو اسے خود سے خفا رکھنا تھا
دل کو کچھ دیر تو مصروف دعا رکھنا تھا

بات جب ترک ای تعلق پہ ہی ٹھری تھی تو پھر
دل میں احساس غم یار بھی کیا رکھنا تھا

دامن موج ہوا یوں تو نا خالی جاتا
گھر کی دہلیز پہ کوئی تو دیا رکھنا تھا

کیا خبر اس کے تعقب میں ہوں کتنی سوچیں ؟
اپنا انداز تو اوروں سے جدا رکھنا تھا

چاندنی بند کیواڑوں میں کہاں اترے گی ؟
اک دریچہ تو بھرے گھر میں کھلا رکھنا تھا

اسکی خوشبو سے سجانا تھا جو دل کو محسن
اسکی سانسوں کا لقب موج صباء رکھنا تھا . . . !

Posted on Oct 25, 2011