جواں غنچوں کو بتلائو محبت مار دیتی ہے 
 پیام ذیست پَھیلاو ، محبت مار دیتی ہے 
 
 سبق تسلیم کرتے ہو تو مت بھولو ، پڑھنا ہے 
 محبت ترک فرماؤ ، محبت مار دیتی ہے 
 
 بہت لیلی ، بہت مجنوں ہوئے نظر وفا آخر 
 نہ یہ سرطان پَھیلاو ، محبت مار دیتی ہے 
 
 بہت دیکھے مریض عشق ہم نے ، اب تقاضہ ہے 
 طبیب عشق بن جاؤ ، محبت مار دیتی ہے 
 
 کسی کو عشق کی راہوں پہ دیکھو گر تو کہہ دینا 
 ستم خود پر نہ تم ڈھائو ، محبت مار دیتی ہے 
 
 مجھے یاران محفل سے پیام آتا بھی ہے تو کیا 
 یہ کہتے ہیں ، پلٹ آؤ ، محبت مار دیتی ہے 
 
 مسافت سے ، رفاقت سے ، یہ سیکھا وصل و فرقت سے 
 اگر تم اس سے بچ پاؤں ، محبت مار دیتی ہے 
 
 وہ کہتے ہیں کہہ مونس عشق پر کہتے ہی رہتے ہو 
 ردیف اب اس کو ٹھہراؤ ، محبت مار دیتی ہے . . . ! 
Posted on Feb 03, 2012

سماجی رابطہ