پھر محّرک ستم شعاری ہے

پھر محّرک ستم شعاری ہے
پھر انہیں جستجو ہماری ہے

پھر وہی داغ و دل سے صحبت گرم
پھر وہی چشم و شعلہ باری ہے

پھر وہی جوش و نالہ و فریاد
پھر وہی شورِ آہ و زاری ہے

پھر خیالِ نگاہِ کافر ہے
پھر تمنائے زخم کاری ہے

پھر وہاں طرزِ دلنوازی ہے
پھر یہاں رسمِ جاں نثاری ہے

پھر وہی بے قراریِ تسکیں
پھر ہمیں اس کی یادگاری ہے

پھر ہمیں کام کچھ نہیں تم سے
پھر وہی وضع گر تمہاری ہے

شیفتہ پھر ہے ننگ عزت سے
پھر وہی ہم ہیں اور خواری ہے

Posted on Jan 28, 2013