ٹوٹی ہے میری نیند مگر

ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم
کو اس سے کیا !

بجتے رہیں ہواؤں سے در ، تم
کو اس سے کیا !

تم موج موج مثل صبا
گُھومتے رہو
کٹ جائیں میری سوچ کے پر ،
تُم کو اس سے کیا

اوروں کا ہاتھ تھامو ،
انھیں راستہ دکھاؤ

میں بُھول جاؤں اپنا ہی
گھر ، تم کو اس سے کیا

ابرِ گریز پا کو برسنے سے
کیا غرض
سیپی میں بن نہ پائے گُہر ،
تم کو اس سے کیا !

لے جائیں مجھ کو مالِ
غنیمت کے ساتھ عدو

تم نے توڈال دی ہے سپر ، تم
کو اس سے کیا !

تم نے تو تھک کے دشت میں
خیمے لگالیے
تنہا کٹے کسی کا سفر ، تم
کو اس سے کیا

Posted on Feb 16, 2011