یہ تو وہی قصہ ہوا

شبنم کے آنسوں پھول ، پر یہ تو وہی قصہ ہوا
آنکھیں میری بھیگی ہوئی ، چہرہ تیرا اترا ہوا

اب ان دنوں میری غزل خوشبو کی اک تصویر ہے
ہر لفظ گنچے کی طرح کھل کر تیرا چہرہ ہوا

شاید یوز بھی لے گئے ، اچھے دنوں کے قافلہ
اس باغ میں اک پھول تھا ، تیری طرح ہنستا ہوا

ہر چیز ہے بازار میں ، اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے
عزت گئی ، شہرت ملی ، رسواء ہوئے ، چرچا ہوا

مندر گئے ، مسجد گئے ، پیروں فقیروں سے ملے
اک اسکو پانے کے لیے ، کیا کیا کیا ، کیا کیا ہوا . . . !

انمول موتی پیار کے دنیا چھڑا کے لے گئی
دل کی حویلی کا کوئی دروازا تھا ٹوٹا ہوا

برسات میں دیوار و در کی ساری تحریریں مٹی ’ ان
دھویا بہت مٹ ’ تا نہیں تقدیر کا لکھا ہوا . . . . . . . . .

Posted on Feb 16, 2011