اول سے آخر تک

کتاب عشق کے اُلٹے ورق اول سے آخر تک
مگر سمجھے نہ ہم اس کا سبق اول سے آخر تک


بری ہے ابتدا بھی انتہا بھی تیری الفت کی
کہ اس میں ہیں غم و رنج و قلق اول سے آخر تک


بشر کو گر نہ ملتی کس کو ملتی عشق کی دولت
نہیں تھا کوئی اس کا مستحق اول سے آخر تک


مے انگور تحفے میں تجھے دیتا ہوں اے زاہد
رہے گا تیز یکساں یہ عرق اول سے آخر تک


ہزاروں دوست دشمن بزم میں اس کی رہے لیکن
رہا اک شکل پر نظم و نسق اول سے آخر تک


لکھوں اُس کو جواب اے داغ کیا میں سخت حیران ہوں
لکھے ہیں خط میں مضمون ادق اول سے آخر تک

Posted on Mar 25, 2013