دھوکہ دیا ہے تم نے کچھ اس اہتمام سے

دھوکہ دیا ہے تم نے کچھ اس اہتمام سے

دھوکہ دیا ہے تم نے کچھ اس اہتمام سے
نفرت ہی ہوگئی ہے محبت کے نام سے

یادوں پے بھلا زور چلا ہے کے اب چلے
لگتا ہے میلا گھر پے میرے یادوں کا شام سے

مجھ کو تو پلا آنکھوں سے بس اے ساقی گلفام
ہوتا ہے نہیں نشہ کچھ مجھے پیالے سے جام سے

ڈرتے ہو اگر تم تو آئو نا ساتھ میں
آتے ہو تو آئو پھر ڈرو نا کسی الزام سے

ان دیس کے نیتاؤں کو غرض کچھ بھی نہیں ہے
عیسی سے ، محمد سے ، نا کچھ رام سے

دیکھا تمہیں تو دل ہوا پھر مضطرب بڑا
روکا تھا ہم نے لاکھ اسے محبت کے نام سے

پتلی پھرےگی نظر میں آئیگا کچھ نا یاد
کرلو خدا کو یاد ابھی اہتمام سے

پتلی کمر ہے آپ کی واللہ ہو بڑی حسین
دکھتا ہے گزرتا ہوا پانی بھی کام سے

خود کا وجود ختم کیا ہے نفیس نے
پکارتے ہیں اب سبھی اسے تیرے نام سے

Posted on Feb 16, 2011