ہائے لوگوں کی کرم فرمائیاں

ہائے لوگوں کی کرم فرمائیاں
تہمتیں ، بدنامیاں ، رسوائیاں

زندگی شاید اسی کا نام ہے
دوریاں ، مجبوریاں ، تنہائیاں

کیا زمانے میں یوں ہے کٹتی ہے رات
کروٹیں ، بے تابیاں ، انگڑائیاں

کیا یہی ہوتی ہے شام انتظار
آہٹیں ، گھبراہٹیں ، پرچھائیاں

ایک رند مست کی ٹھوکر میں ہیں
شاہیاں ، سلطانیاں ، دارائیاں

رہ گئیں اک طفل مکتب کے حضور
حکمتیں ، آگاہیاں ، دانائیاں

ایک پیکر میں سمٹ کر رہ گئیں
خوبیاں ، زیبائیاں ، رعنائیاں

دیدہ و دانستہ ان کے سامنے
لغزشیں ، ناکامیاں ، پسپائیاں

ان سے مل کر اور بھی کچھ بڑھ گئیں
الجھنیں ، فکریں ، قیاس آرائیاں

چند لفظوں کے سوا کچھ بھی نہیں
نیکیاں ، قربانیاں ، سچائیاں

کیف ، پیدا کر سمندر کی طرح
وسعتیں ، خاموشیاں ، گہرائیاں

Posted on Oct 10, 2012