ہمارے خون کے پیاسے پشیمانی سے مر جائیں

ہمارے خون کے پیاسے پشیمانی سے مر جائیں
اگر ہم ایک دن اپنی ہی نادانی سے مر جائیں

اذیت سے جنم لیتی سہولت راس آتی ہے
کوئی ایسی پڑے مشکل کہ آسانی سے مر جائیں

ادھوری ہی نظر کافی ہے اس آئینہ داری پر
اگر ہم غور سے دیکھیں تو حیرانی سے مر جائیں

بنا رکھیں ہیں دیواروں پہ تصویریں پرندوں کی
وگرنہ ہم تو اپنے گھر کی ویرانی سے مر جائیں

اگر وحشت کا یہ عالم رہا تو عین ممکن ہے
سکوں سے جیتے جیتے بھی پریشانی سے مر جائیں

کہیں ایسا نہ ہو یارب! کہ یہ ترسے ہوئے عابد
تری جنت میں اشیاء کی فراوانی سے مر جائیں

Posted on May 28, 2014