ہم جگنو تھے

ہم جگنو تھے ، ہم تتلی تھے ، ہم رنگ برنگی پنچھی تھے ،
کچھ ماہ و سال کی جنت میں ماں ہم دونوں بھی سانجھی تھے

میں چھوٹا سا اک بچا تھا ، تیری انگلی تھام کے چلتا تھا ،
تو دور نظر سے ہوتی تھی میں آنسو آنسو روتا تھا ،

اک خوابوں کا روشن بستا تو روز مجھے پہناتی تھی ،
جب ڈرتا تھا میں راتوں کو تو اپنے ساتھ سلاتی تھی ،

ماں تم نے کتنے برسوں تک اس پھول کو سینچا ہاتھوں سے ،
زندگی کے گہرے بھیدوں کو میں سمجھا تیری باتوں سے ،

میں تیرے ہاتھ کے تکیے پر اب بھی رت کو سوتا ہوں ،
ماں میں اک چھوٹا سا بچا ہوں تیری یاد میں اب بھی روتا ہوں . . . !

Posted on Apr 21, 2012