کوئی دیوار ہے نا در سائیں

کوئی دیوار ہے نا در سائیں
ہم فقیروں کا کیا ہے گھر سائیں

آبلے پر گئے ہیں پیروں میں
ختم ہوتا نہیں سفر سائیں

کون رہتا ہے اس خرابے میں
ڈھونڈتی ہے کسے نظر سائیں

ایک قیامت گزر گئی مجھ پر
اور مجھ کو نہیں خبر سائیں

ایک بھٹکے ہوئے مسافر کو
اور ہونا ہے در بدر سائیں

Posted on Sep 29, 2012