لوٹ آئی ہے

لوٹ آئی ہے

لوٹ آئی تیرے لمس سے مہکی ہوئی شامیں
پھر آگ لگا دی تیری سانسوں نے ہوا میں

رقصاں ہیں اسی لے پہ ستاریں ہوں کے شبنم
کیا سحر ہے اس دل کے دھڑکنے کی صدا میں

اک نور کا سیلاب ہے بند آنکھوں کے اندر
لپٹے ہوئے چہرے ہیں اندھیرے کی ردا میں

کس آگ نے رکھا ہے قدم دل کی زمین پے
سورج سے دمکتے ہیں نشان کف پا میں

اس خوف سے اک عمر ہمیں نیند نا آئی
اک چور چھپا بیٹھا ہے سینے کی جفا میں

جاگ اٹھا ہے دل میں کوئی سویا ہوا وحشی
ہم گھر میں ہیں شہزاد کے جنگل کی فضا میں

Posted on Feb 16, 2011