لیا میں نے تو بوسہ خنجرِ قاتل کا مقتل میں

لیا میں نے تو بوسہ خنجرِ قاتل کا مقتل میں
اجل شرما گئی سمجھی کہ مجھ کو پیار کرتے ہیں

مرا خط پھینک کر قاتل کے مُنہ پر طنز سے بولے
خلاصہ سارے اس طومار کا یہ ہے کہ مرتے ہیں

ابھی اے جاں تونے مرنے والوں کو نہیں دیکھا
جیئے ہم تو دکھا دیں گے کہ دیکھ اس طرح مرتے ہیں

قیامت دور، تنہائی کا عالم، روح پر صدمہ
ہمارے دن لحد میں دیکھیئے کیوں کر گزرتے ہیں

جو رکھ دیتی ہے شانہ آئینہ تنگ آکے مشاطہ
ادائیں بول اُٹھتی ہیں کہ دیکھو یوں سنورتے ہیں

چمن کی سیر ہی چھوٹی تو پھر جینے سے کیا حاصل؟
گلا کاٹیں مرا صیاد ناحق پر کترتے ہیں

قیام اس بحرِ طوفاں خیز دنیا میں کہاں ہمدم؟
حباب آ سا ٹھہرتے ہیں تو کوئی دم ٹھہرتے ہیں

ملا کر خاک میں بھی ہائے شرم اُنکی نہیں جاتی
نگہ نیچی کیئے وہ سامنے مدفن کے بیٹھے ہیں

بڑے ہی قدرداں کانٹے ہیں صحرائے مُحبت کے
کہیں گاہک گریباں کے، کہیں دامن کے بیٹھے ہیں

وہ آمادہ سنورنے پر، ہم آمادہ ہیں مرنے پر
اُدھر وہ بن کے بیٹھے ہیں، اِدھر ہم تن کے بیٹھے ہیں

امیر ، اچھی غزل ہے داغ کی، جسکا یہ مصرع ہے،
بھنویں تنتی ہیں، خنجر ہاتھ میں ہے تن کے بیٹھے ہیں

Posted on May 19, 2011