ریت سے بُت نا بنا اے میرے اچھے فنکار

ایک لمحے کو ٹھہر میں تجھے پتھر لا دوں
میں تیرے سامنے انبار لگا دوں لیکن
کون سے رنگ کا پتھر تیرے کام آئیگا
سرخ پتھر جسے دل کہتی ہے بے دل دنیا
یا وہ پتھرائی ہوئی آنکھ کا نیلا پتھر
جس میں صدیوں کے تحیر کے پڑے ہوں ڈورے

کیا تجھے روح کے پتھر کی ضرورت ہوگی
جس پہ حق بات بھی پتھر کی طرح گرتی ہے
ایک وہ پتھر ہے جسے کہتے ہیں سفید
اس کے مرمر میں سیاہ خون جھلک جاتا ہے
ایک انصاف کا پتھر بھی تو ہوتا ہے مگر
ہاتھ میں تیشہ زر ہو تو وہ ہاتھ آتا ہے

جتنے معیار ہیں اس دور کے سب پتھر ہیں
شعر بھی رقص بھی تصویر و گناہ بھی پتھر
میرے الہام تیرا ذہن رساء بھی پتھر
اس زمانے میں ہر فن کا نشان پتھر ہے
ہاتھ پتھر ہیں تیرے میری زبان پتھر ہے
ریت سے بُت نا بنا اے میرے اچھے فنکار

Posted on May 04, 2011