آج بہت دنوں بعد سنی ہے بارش کی آواز

آج بہت دنوں بعد سنی ہے بارش کی آواز
آج بہت دنوں بعد کسی منظر نئے رستہ روکا ہے
رم جھم کا ملبوس پہن کر یاد کسی کی آئی ہے
آج بہت دنوں باد اچانک آنکھ یوں ہی بھر آئی ہے
آنکھ اور منظر کی وسعت میں چاروں جانب بارش ہے
اور بارش میں دور کہیں ایک گھر ہے جس کی
ایک ایک اینٹ پر تیرے میرے خواب لکھے ہیں
اور اس گھر کو جانے والی کچھ گلیاں ہیں
جس میں ہم دونوں کے سائے تنہا تنہا بھیگ رہے ہیں
دروازے پر قفل پڑا ہے اور دریچے سونے ہیں
دیواروں پے جمی ہوئی خاک کی طرح چپ کر
موسم ہم کو دیکھ رہے ہیں
کتنے بادل ہم دونوں کی آنکھ سے اوجھل
برس برس کر گزر چکے ہیں
ایک کمی سی ایک نمی سی
چاروں جانب پھیل رہی ہے
کئی زمانے ایک ہی پل میں
باہم مل کر بھیگ رہے ہیں
اندر یادیں سُوکھ رہی ہیں
باہر منظر بھیگ رہے ہیں . . . !

Posted on Jul 16, 2012