دل سے ملا کے دل پیار کیجیے ! 
 
 کوئی سہانا اقرار کیجیے ، 
 یہ شرمانا کیسا ، گھبرانا کیسا ، 
 جینے سے پہلے مر جانا کیسا ، 
 آنچلوں کی چھاؤں میں ، 
 رس بھری فضاؤں میں ، 
 اس زندگی کو گلزار کیجیے ، 
 
 
 دل سے ملا کے دل پیار کیجیے ، 
 
 
 آتی بہاریں ، جاتی بہاریں ! 
 کب سے کھڑی ہیں باندھے قطاریں ، 
 چھا رہی ہے بےخودی ، 
 کہہ رہی ہے زندگی ، 
 جی کی اُمنگیں بیدار کیجیے ، 
 
 
 دل سے ملا کے دل پیار کیجیے ! 
 
 
 دل سے بھلا کے رسوائیوں کو ، 
 جنت بنا لے تنہائیوں کو ، 
 آرزو جوان ہے ، 
 وقت مہربان ہے ، 
 دل کو نا جانے ہوشیار کیجیے ، 
 
 
 دل سے ملا کے دل پیار کیجیے ! 
Posted on Aug 27, 2012

سماجی رابطہ