ہنسی کہنکتی ہوئی

ہنسی کہنکتی ہوئی
اور بجھی بجھی خوشیاں
ہے دوستی کی مہک سے
ہے رچی ہوئی گھڑیاں
مزہ انوکھا سا ہے
آتے جاتے لمحوں میں
کتابیں گودھ میں پہلی
ہے کھوئے باتوں میں
رفاقتوں میں خزانہ
جو ہم نے پایا ہے
نا دل پہ بوجھ ہے کوئی
نا غم کا سایہ ہے
ہمیں یہ گھُن ہے کے خوشبو
کو ہم تو دیکھیں گئے
یقین ہے کے ستاروں
کو بھاڑ کے چھو لیں گئے
کھلا یہ راز بچھڑنا
بھی تھا بہاروں کو
کسی کے ہاتھ نہیں
چھو سکے ستاروں کو
کبھی دریچوں میں شمعائیں
جو ہم جلاتے ہیں
تو گیت لہجے خیالوں
میں گنگناتے ہیں . . . !

Posted on Aug 03, 2012