جیسے کوئی خوشبو کا رقص جاگا ہے

جیسے کوئی خوشبو کا رقص جاگا ہے
سنہری تتلیاں پھر سے گلابوں کے لبوں کو چھو کر آئی ہیں
درختوں کی کھلی بانہوں میں سائے بات کرتے ہیں
اداسی اشک آنکھوں میں لیے اب دور نکلی
اسی ڈھلتے ہوئے دن کی منڈیروں پر
چراغ شام جلتا ہے
تو دست مہربان جیسے . .

میرے آنچل کے کونے سے وفا کا ایک لمحہ باندھ دیتا ہے
میرے صحن ہنر میں حرف و معنی کی تلاوت سانس لیتی ہے
کوئی روشن ستارہ آسْمان پر مسکراتا ہے
سمندر گیت گاتا ہے

کمال احد مستی ہے
جہاں پہ موسم جان بھی حیران لگتا ہے
کوئی چہرہ میرے دل کے بدن سے آن لگتا ہے
یہ ہی چپکے سے کہتا ہے

مجھے تم سے محبت ہے
مجھے تم سے محبت ہے . . . !

Posted on Jun 15, 2012