کہو ، 
 وہ دشت کیسا تھا ؟ 
 جدھر سب کچھ لٹا آئے 
 جدھر آنکھیں گنوا آئے 
 کہا ، 
 سیلاب جیسا تھا ، 
 بہت چاہا کے بچ نکلیں مگر سب کچھ بہا آئے 
 کہو ، 
 وہ حجر کیسا تھا ؟ 
 کبھی چھو کر اسے دیکھا 
 تو تم نے کیا بھلا پایا 
 کہا ، 
 بس آگ جیسا تھا ، 
 اسے چھو کر تو اپنی روح یہ تن من جلا آئے 
 کہو ، 
 وہ وصل کیسا تھا 
 تمہیں جب چھو لیا اس نے 
 تو کیا احساس جگا تھا ؟ 
 کہا ، 
 اک راستے جیسا ، 
 جدھر سے بس گزارنا تھا ، مکان لیکن بنا آئے 
 کہو ، 
 وہ چند کیسا تھا ؟ 
 فلک سے جو اتر آیا ! 
 تمہاری آنکھ میں بسنے 
 کہا ، 
 وہ خواب جیسا تھا ، 
 نہیں تعبیر اس کی ، اسے اک شب سلا آئے 
 کہو ، 
 وہ عشق کیسا تھا ؟ 
 بنا پرکھے کیا جو تم نے 
 کہا ، 
 تتلی کے رنگ جیسا ، 
 بہت کچا انوکھا سا ، جب ہی اس کو بھلا آئے 
 کہو ، 
 وہ نام کیسا تھا ؟ 
 جسے چنچل 
 ہواؤں پر لکھا تم نے 
 کہا ، 
 بس موسموں جیسا ، 
 نا جانے کس طرح کس پل کسی رو میں مٹا آئے 
 سنو ، 
 خواہشوں کی لہروں پر سنبھالنا کیوں ہوا مشکل ؟ 
 بتایا ، 
 پانیوں پر خواب کی رکھی بنا جیسے 
 بھلا تم روح کی ان کرچیوں میں ڈھونڈتے کیا ہو ؟ 
 کہا ، 
 یہ اتنی روشن ہیں کہہ سورج ہے دیا جیسے 
 سنو آنکھوں ہی آنکھوں کا بیان کیسے لگا تم کو ؟ 
 لگا ، 
 پھولوں سے سرگوشی سی کرتی ہے صباء جیسے . . . ! 
کہو وہ دشت کیسا تھا
Posted on Apr 24, 2012

سماجی رابطہ