نیلے لباس میں جاننے وہ کیا لگ رہی تھی

نیلے لباس میں جاننے وہ کیا لگ رہی تھی
چند نے کہا اپسرا لگ رہی تھی

بدل نے کہا گھٹا لگ رہی تھی
دھنک نے کہا قوس قضا لگ رہی تھی

ستاروں نے کہا روشنی لگ رہی تھی
پھولوں نے کہا کالی لگ رہی تھی

فلک نے کہا آسْمان لگ رہی تھی
رات نے کہا کہکشاں لگ رہی تھی

ساغر نے کہا بھنور لگ رہی تھی
سورج نے کہا سحر لگ رہی تھی

شبنم نے کہا گلاب لگ رہی تھی
چاندنی نے کہا مہتاب لگ رہی تھی

ہوا نے کہا احساس لگ رہی تھی
شام نے کہا خوش لباس لگ رہی تھی

صبح نے کہا بعد صباء لگ رہی تھی
نیلے لباس میں جاننے وہ کیا لگ رہی تھی . . . .

تصور ہی تصور میں جب سوچتا ہوں
میں جا کے وہاں پہنچتا ہوں

ہاتھوں پہ حنا بھی سجائے ہوئی ہے
لگتا ہے کوئی پری آئی ہوئی ہے

وہ ستاروں میں مہتاب لگ رہی ہے
پھولوں میں جیسے گلاب لگ رہی ہے

وہ سب سے جدا اور حسین لگ رہی ہے
خیالوں میں میرے ماہ جبیں لگ رہی ہے

جاننے کب تصور کے آنگن سے لوٹ آتا ہوں
اور نیند کی وادی میں پہنچ جاتا ہوں . . . . !

Posted on May 17, 2012