سر صحرا مسافر کو ستارہ یاد رہتا ہے

سر صحرا مسافر کو ستارہ یاد رہتا ہے
میں چلتا ہوں مجھے چہرہ تمہارا یاد رہتا ہے

تمہارا ظرف ہے تم کو محبت بھول جاتی ہے
ہمیں تو جس نے ہنس کر بھی پکارا یاد رہتا ہے

محبت اور نفرت ، تلخی اور شیریں
کس نے کس طرح کا پھول مارا یاد رہتا ہے

محبت میں جو ڈبا ہو اسے ساحل سے کیا لینا
کسے اس بہر میں جا کر کنارہ یاد رہتا ہے

بہت لہروں کو پکڑا ڈوبنے والے کے ہاتھوں نے
یہی بس ایک دریا کا نظارہ یاد رہتا ہے

صدائیں ایک سی ، یکسانیت میں ڈوب جاتی ہیں
ذرا سا مختلف جس نے پکارا یاد رہتا ہے . . . . !

Posted on Aug 18, 2012