شام کا اندھیرا کچھ اب تلک باقی ہے

شام کا اندھیرا کچھ اب تلک باقی ہے

شام کا اندھیرا کچھ اب تلک باقی ہے
یاد مٹ گئی تیری پر احساس ابھی باقی ہے
یوں تو مدتوں سے ہم بھول گئے ہیں تجھے
پھر بھی دھندلی سی کوئی یاد ابھی باقی ہے


ذرا سوچو پھر سے ایک نظر دیکھ کر تم
کہیں کسی شام کی کوئی فریاد ابھی باقی ہے
یوں تو ہنس کے جھیلا ہر ستم ظالم کا مگر
جدائی کے آنسوؤں کا درد سہنا ابھی باقی ہے


وہ تو مدہوشی میں تھے احساس نا کر سکے کچھ بھی
ہمیں ہوش میں مدھوش ہونا ابھی باقی ہے
کیسے کہیں کیا ظلم ہوئے ہیں اس پہ . . .
یہ تو آغاز تھا . . . کچھ انجام ابھی باقی ہے

Posted on Feb 16, 2011