طلسمِ حسنِ سخن سے شجر بناتا ہے

طلسمِ حسنِ سخن سے شجر بناتا ہے
پھر اس کے بعد وہ ان پر ثمر بناتا ہے

وہ باخبر ہے مری ذات کے عناصر سے
وہ چھان کر کے مری خاک، زر بناتا ہے

میں اس کے واسطے اک ریت کا گھروندا ہوں
اِدھر گراتا ہے مجھ کو، اُدھر بناتا ہے

زمیں گھماتا ہے دیکھو وہ اپنی مرضی سے
کہ چاک پر مرے شام و سحر بناتا ہے

جو چشم ہائے غزالاں کو دیکھ لیتا ہے
وہ ایک قطرہ کہاں پھر گہر بناتا ہے

دل اپنی موج میں آئے تو پھر سرِ قرطاس
ہر ایک لفظ کو اک چشمِ تر بناتا ہے

Posted on Jan 16, 2013