بھولی ہوئی سدا ہوں مجھے یاد کیجیے

بھولی ہوئی سدا ہوں مجھے یاد کیجیے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے
منزل نہیں ہوں خضر نہیں رہ زن نہیں
منزل کا رستہ ہوں مجھے یاد کیجیے
میری نگاہ شوق سے ہر گل ہے دیوتا
میں عشق کا خدا ہوں مجھے یاد کیجیے
نغموں کی ابتدا تھی کبھی میرے نام سے
اشکوں کی انتہا ہوں مجھے یاد کیجیے
گم سم کھڑی ہیں دونوں جہاں کی حقیقت
میں ان سے کہہ رہا ہوں مجھے یاد کیجیے
ساغر کسی کے حسن تغافل شر کی
بہکی ہوئی ادا ہوں مجھے یاد کیجیے . . . !

Posted on Apr 24, 2012