در قفس سے پرے جب صباء گزرتی ہے

در قفس سے پرے جب صباء گزرتی ہے
کسے خبر کے اسیروں پہ کیا گزرتی ہے

تعلقات کبھی اس قدر نا ٹوٹے تھے
کے تیری یاد بھی دل سے خفا گزرتی ہے

وہ اب ملے بھی تو ملتا ہے اس طرح جیسے
بجھے چراغ کو چھو کر ہوا گزرتی ہے

یہ اہل حجر کی بستی ہے احتیاط سے چل
مصیبتوں کی یہاں انتہا گزرتی ہے

نہ پوچھ اپنی انا کی بغاوتیں محسن
در قبول سے بچ کر دعا گزرتی ہے . . . !

Posted on Jun 28, 2012

در قفس سے پرے جب صباء گزرتی ہے

در قفس سے پرے جب صباء گزرتی ہے
کسے خبر کے اسیروں پر کیا گزرتی ہے

تعلق کبھی اس قدر نا ٹوٹے تھے
کے تیری یاد بھی دل سے خفا گزرتی ہے

وہ اب ملے بھی تو ملتا ہے اس طرح جیسے
بجھے چراغوں کو چھو کر ہوا گزرتی ہے

فقیر کب کے گئے جنگلوں کی سمت مگر
گلی سے آج بھی ان کی صدا گزرتی ہے

یہ اہل ہجر کی بستی ہے ، احتیاط سے چل
مصیبتوں کی یہاں انتہا گزرتی ہے

بھنور سے بچ تو گئیں کشتیاں مگر اب کے
دلوں کی خیر کے موج بلا گزرتی ہے

نا پوچھ اپنی انا کی بغاوتیں محسن
در قبول سے بچ کر دعا گزرتی ہے

Posted on Sep 12, 2011